تحریر: مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی
ہے جنت البقیع بزرگوں کی یادگار
ہیں اہلِ بیتِ پاک کے اکثر یہیں مزار
قبرِ جنابِ فاطمہ زہرا کے میں نثار
جس پر ہے اُس کے فضل و فضائل کا انحصار
شامل جو اس میں خاک ہے آلِ رسول کی
اس واسطے خدا نے یہ حرمت قبول کی
حوزہ نیوز ایجنسی। جنت البقیع تاریخی دستاویز کے پیش نظر ایک قدیم تاریخی دستاویز ہےیہ مدینہ منورہ میں مسجدالحرام کے شمال مشرق میں واقع ایک تاریخی قبرستان ہے جس کا تذکرہ، اسلام سے پہلے بھی ملتا ہے۔"بقیع" کو بقیع کا نام اس لیے دیا گیا کہ لغوی اعتبار سے بقیع کا معنی ایک ایسی وسیع زمین جہاں بہت سی گھانس ہواوربہت سے چھوٹے چھوٹے درخت ہوں و۔۔۔ ہجرتِ رسولؐ اورظہورِ اسلام سے پہلے مدینہ کے لوگ اپنے مردوں کو" بنی حرام " ، "بنی سالم" نامی قبرستان یا پھر انھیں اپنے گھر میں ہی دفن کر دیا کرتے تھے ۔ (تاریخ حرم ائمه بقیع / ص۶۱)
لیکن جنت البقیع کی تأسیس کے بعد مسلمانان ِ مدینہ کو اپنا ذاتی قبرستان ملا جہاں مسلمان اپنے اپنے مردوں کو دفنانے لگے۔
تختہ ریاضِ خلد کا ارضِ بقیع ہے
کیا جنت البقیع کی شانِ رفیع ہے
مدینہ منورہ میں اسلام کے ظہور کے بعد ،رسول دوسرا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کے حکم و دستور سے جو سب سے پہلا قبرستان مسلمانوں نے بنایا وہ" جنت البقیع "ہےجو آج صدر اسلام کی ایک اہم نشانیوں میں سے ایک ہے جسے"بقیع الغرقد" کے نام سے بھی یادکیا جاتا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ اس قبرستان میں ایک خاردار درخت اُگا کرتا تھا جو "غرقد" کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
آج یہاں جو قبریں آل ِسعود اور نجدی وہابیوں کے ظلم و ستم کا شکار نظر آرہی ہیں در واقع ۸شوال ۱۳۴۳ ہجری مطابق مئ ۱۹۲۵ سے پہلے یہ ساری قبریں ،ضریح مطہرات کے حصار میں تھیں ۔لیکن اسلام دشمن عناصر،وہابی گروہ نےاپنے آباءو اجداد اورسلف کےمعاندانہ افکار کی پیروی کرتے ہو ئےیہاں کے سارے اسلامی آثارجیسے"گنبد و مناراور ضریح وغیرہ "جیسی چیزوں کومسمار کر دیا جو در واقع اسلامی آثارکوختم کرنے کی ایک یہودی سازش ہے جو ظہور ِ اسلام سے لیکر اب تک چلی آرہی ہے ۔
جنت البقیع کا تذکرہ دنیا کا معروف سیاح" ابنجبیر "یوں کرتا ہے کہ جب اس نے ساتویں قرن میں حجاز کا سفر کیا تو جنت البقیع بھی زیارت کی غرض سے پہنچااور اس وقت جو تصویر اس نے جنت البقیع کی دیکھی تھی وہ یوں بیان کرتا ہے کہ جنت البقیع۴۹۵ هجری قمری میں باضابطہ چہاردیواریوں میں محصور تھا اس پرفلک شگاف بلند بالا گنبد ومینار اور قبہ بھی موجود تھے۔یہاں بھی دوسرے آستانہ ہای مقدس کی طرح منبر و محراب ،ضریح، روپوش، جھاڑ و فانوس،شمعدان و فرش اور اس کی دیکھ بھال اور یہاں کے زائروں کی خدمت کے لیے خدّام بھی تھے۔(رحله ابن جبیر، ص۱۷۳ اورمراہ الحرمین وغیرہ جیسی کتابوں میں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے )
محمد لبیب مصری نے جب ۱۳۲۷ ہجری میں مدینہ کا سفر کیا تو اس نے اپنے سفر نامہ میں یوں لکھا ہے "کہ وہاں ایک معروف گنبد«قبهالبین» نامی موجود ہے اور وہاں ایک حجرہ ہے جس میں ایک کنواں نماں گڑھا ہے جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے دندان ہای مبارک کے دفن ہونے کا ادعا کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ سبط رسول ؐ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی وہاں ضریح مطہر ہے جو فلز (میٹل)کی ہےجس پر گنبد ہےاور وہ فارسی خطوط سے مزین و حکاکی شدہ ہے ۔میرے خیال سے یہ عجمی شیعوں کے آثار ہو سکتے ہیں ۔(رحله ابن جبیر، ص۱۷۳)
غرب کا معروف سیاح ریچارڈبورتون (Richard Burton) ۱۲۷۶ هجری قمری،کے ائمہ جنت البقیع کےقبوں کا تذکرہ یوں کرتا ہے کہ یہ قبہ جو دائیں طرف ہیں سب سے بڑے ،بہترین اور خوبصورت قبوں میں سے ایک ہے ۔
لیکن افسوس !صد افسو س کہ آج اسلام اور رسول اسلام ؐ کی معزز اوقر مکرم ہستیاں دن کی چلچاتی دھوپ اور رات کی اوس میں بے گنبد و چھت خاک کی آغوش میں بغیر مجاورو زائر، آرام کر رہی ہیں! کو ئی ان کی قبروں پر ایک شمع تک روشن کرنے والا نہیں ہوتا اگر کو ئی چاہے بھی تو یہ کام انجام نہیں دے سکتا، آل سعود کے اوباش ائمہ بقیع کے زائروں کو ان کی زیارت کرنے سے روکتے ہیں اور ان کے لیے سد راہ بن جاتے ہیں اور انھیں ان سے دور رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں ۔بس یہ شہر،بے صوت وبے صدا ہے...جہاں ہزاروں اور لاکھوں دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہو ئے حجاج کے دورود سلام اور تلاوت قرآن کی آواز کے باوجود یہ شہر ،شہر خموشاں کی صورت اختیار کئیے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کا عالم اسلام سے سوال مانگ رہا ہے ۔
"ابن تیمیہ " اور "ابن قیّم جوزی" نامی افراد کو عالم اسلام علماء اور محدثین کی صف میں شمار کرتا ہے لیکن ان کے اقوال و افکار اور ان کی لکھی ہو ئی کتابوں کا اگر بنظر غائر تعصب سے دور ہو کر منصف مزاجی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو بخوبی پتہ چل جائے گا کہ آج دنیا میں جہاں بھی اسلامی آثار کو مٹا نے کی کوشش کی جارہی ہے یہ ایسے ہی یہودی افکار و ا
قوال کا نتیجہ جس نے اپنے دوش پر لبادہ اسلام ڈال کر اسلام اور اسلامی آثار کو مٹا دینے کی قسم کھا رکھی تھی اور یہ عالم اسلام کے پہلے وہ دومفتیٔ شرک و بدعت تھے جنہوں نے قبروں ، روضوں اور آستانوں۔۔۔ کو منہدم و مسمار کرنے کا فتوی دے کر شر پسند عناصر کی ہمت افزائی کر کے اپنے یھودی الاصل ہونے کا ثبوت پیش کر دیا۔
"ابن قیّم جوزی" جس نے یہ اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ « یجب هدم المساجد الّتی بنیت علی القبور، ولا یجوز إبقاۆها بعد القدرة علی هدمها وإبطالها یوماً واحداً .» "جوتعمیرات قبور پر بنائی گئ ہیں انہیں منہدم کرنا واجب ہے اور منہدم کرنے پر قبر پر حتی ایک دن کیلئے آثار کا باقی رکھنا جائز نہیں ہے۔"( زاد المعاد فی هدی خیر العباد، ابن القیم ص ۶۶۱)
جب سعودیوں نے ۱۳۴۴ ہجری قمری میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر تسلط حاصل کیا انہوں نے "بقیع" اور حضرت رسول خدا صلی اللہ آلہ انکے اہلبیت علیہم السلام اور اصحابہ منتجبین کے آثارکو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کی آغاز ۸شوال مطابق مئ ۱۹۲۵ کو ہوا ہے جو کہ ابھی تک جاری ہے ۔
مرحوم آقا بزرگ تہرانی اپنی کتاب '' الذریعۃ '' کی آٹھویں جلد کے صفحہ ۲۶۱ پر یوں تحریر فرماتے ہیں: وہابی ۱۵/ ربیع الاول ۱۳۴۳ہجری کو حجاز پر قابض ہوئے اور آٹھویں شوال ۱۳۴۳ہجری کو جنت البقیع میں ائمہ کے مزاروں اور صحابۂ کرام کی قبروں کو منہدم کر دیا ۔اس دن کو" یوم الھدم" ،کے نام سے بھی جاناجاتاہے ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اس قبرستان "جنت البقیع"میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے حکم سے سب سے پہلے جس شخصیت کو سپرد خاک کیا گیا وہ آنحضرت ؐکےمخلص صحابی اورحضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کے قریبی ساتھی"جناب عثمان بن مظعون" ہیں ۔نیزسرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ نے جنگ احد کے بعض شہداء کو اور اپنے بیٹے "ابراہیم " کو بھی یہیں دفنایا ہے۔اسکے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کی ازواج مطہرات ، چچا "عباس"اور آپ کی پارہ ٔ تن سیدہ دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ،ام البنین سلام اللہ علیہا ، فاطمہ بنت اسدعلیہا السلام اور کئی بزرگ صحابی حضرات بھی مدفون ہیں ۔
جنت البقیع اپنے مقام و منزلت کے اعتبار سے اتنی بلند و بالا ہے کہ رسول انام حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا کہ: جنت البقیع سے ستر ہزار لوگ ایسے محشور ہوں گے جن کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے اوروہ بغیر حساب و کتاب کے بہشت میں داخل ہوں گے ۔
شیخ صدوق(رح) نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ تم میں سے جوبھی شخص حج کرنے جائے تواسے حج کو حضرت رسول کی زیارت پرتمام کرناچاہیے اسی سے حج تمام وکامل ہوتا ہے۔
علامہ مجلسی(رح) کہتے ہیں کہ معتبر سند کے ساتھ عبداﷲ بن عباس سے نقل ہواہے کہ حضرت رسول(ص)نے فرمایا کہ:جوشخص بقیع میں امام حسن علیہ السلام کی زیارت کرے،اس کاقدم پل صراط پر ثابت رہے گا جب کہ دوسرے لوگوں کے قدم لغزش کھارہے ہوں گے۔
مقنعہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جوشخص میری زیارت کرے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اوراسے تنگ دستی اور پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔
کائنات تشیع، ہر سال ٨ شوال کو" یوم انہدام جنت البقیع" منا کر اہلیبت علیہم السلام سے مودت کے فرائض اور اجر رسالت ادا کرتی ہے۔اور ہر سال اسی دن (آٹھویں شوال) کے عنوان سے دنیا کے ہر خطہ میں صدائے احتجاج بلند کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتی ہے اور بین الاقوامی تنظیم مثلاً یونیسکو،عرب لیگ،موتمرعالم اسلامی،تنظیم اسلامی کانفرنس(OIC )اورعالمی انسانی حقوق کمیشن کو اس کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہ وہابیوں پر دباؤ ڈالے تا کہ وہ شیعوں کو"جنت البقیع "کو تعمیر نو کی اجازت دیں ۔
قارئین کرام اگر وہابی سلفی گرہوں کی خبثات ،ظلم و زیادتی اور اسلام دشمنی کے آثار کا ملاحظہ کرنا ہو تو صلاح الدين مختارنامی وہابی شخص کی کتاب "تاريخ امملکه العربيه السعوديه کما عرفت"کی طرف رجوع کر سکتے ہیں ۔
زیارت ائمہ بقیع
یہ ارضِ پاک آفتِ دنیا سے پاک ہے
کیونکر نہ پاک ہو کہ بزرگوں کی خاک ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السَّلامُ عَلَیْکُمْ أَئِمَّةَ الْهُدَى السَّلامُ عَلَیْکُمْ أَهْلَ التَّقْوَى السَّلامُ عَلَیْکُمْ أَیُّهَا الْحُجَجُ عَلَى أَهْلِ الدُّنْیَا السَّلامُ عَلَیْکُمْ أَیُّهَا الْقُوَّامُ فِی الْبَرِیَّةِ بِالْقِسْطِ السَّلامُ عَلَیْکُمْ أَهْلَ الصَّفْوَةِ السَّلامُ عَلَیْکُمْ آلَ رَسُولِ اللهِ السَّلامُ عَلَیْکُمْ أَهْلَ النَّجْوَى أَشْهَدُ أَنَّکُمْ قَدْ بَلَّغْتُمْ وَ نَصَحْتُمْ وَ صَبَرْتُمْ فِی ذَاتِ اللهِ وَ کُذِّبْتُمْ وَ أُسِیءَ إِلَیْکُمْ فَغَفَرْتُمْ وَ أَشْهَدُ أَنَّکُمُ الْأَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمُهْتَدُونَ وَ أَنَّ طَاعَتَکُمْ مَفْرُوضَةٌ وَ أَنَّ قَوْلَکُمُ الصِّدْقُ وَ أَنَّکُمْ دَعَوْتُمْ فَلَمْ تُجَابُوا وَ أَمَرْتُمْ فَلَمْ تُطَاعُ وا وَأَنَّکُمْ دَعَائِمُ الدِّینِ وَ أَرْکَانُ الْأَرْضِ لَمْ تَزَالُوا بِعَیْنِ اللهِ یَنْسَخُکُمْ مِنْ أَصْلابِ کُلِّ مُطَهَّرٍ وَ یَنْقُلُکُمْ مِنْ أَرْحَامِ الْمُطَهَّرَاتِ لَمْ تُدَنِّسْکُمُ الْجَاهِلِیَّةُ الْجَهْلاءُ وَ لَمْ تَشْرَکْ فِیکُمْ فِتَنُ الْأَهْوَاءِ طِبْتُمْ وَ طَابَ مَنْبِتُکُمْ مَنَّ بِکُمْ عَلَیْنَا دَیَّانُ الدِّینِ فَجَعَلَکُمْ فِی بُیُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیهَا اسْمُهُ وَ جَعَلَ صَلاتَنَا عَلَیْکُمْ رَحْمَةً لَنَا وَ کَفَّارَةً لِذُنُوبِنَا إِذِ اخْتَارَکُمُ اللهُ لَنَا وَ طَیَّبَ خَلْقَنَا بِمَا مَنَّ عَلَیْنَا مِنْ وِلایَتِکُمْ وَ کُنَّا عِنْدَهُ مُسَمِّینَ بِعِلْمِکُمْ مُعْتَرِفِینَ بِتَصْدِیقِنَا إِیَّاکُمْ وَ هَذَا مَقَامُ مَنْ أَسْرَفَ وَ أَخْطَأَ وَ اسْتَکَانَ وَ أَقَرَّ بِمَا جَنَى وَ رَجَا بِمَقَامِهِ الْخَلاصَ وَ أَنْ یَسْتَنْقِذَهُ بِکُمْ مُسْتَنْقِذُ الْهَلْکَى مِنَ الرَّدَى فَکُونُوا لِی شُفَعَاءَ فَقَدْ وَفَدْتُ إِلَیْکُمْ إِذْ رَغِبَ عَنْکُمْ أَهْلُ الدُّنْیَا وَ اتَّخَذُوا آیَاتِ اللهِ هُزُوا وَ اسْتَکْبَرُوا عَنْهَا۔
اس کے بعد یہ پڑھے
یَا مَنْ هُوَ قَائِمٌ لا یَسْهُو وَ دَائِمٌ لا یَلْهُو وَ مُحِیطٌ بِکُلِّ شَیْءٍ لَکَ الْمَنُّ بِمَا وَفَّقْتَنِی وَ عَرَّفْتَنِی بِمَا أَقَمْتَنِی عَلَیْهِ إِذْ صَدَّ عَنْهُ عِبَادُکَ وَ جَهِلُوا مَعْرِفَتَهُ وَ اسْتَخَفُّوا بِحَقِّهِ وَ مَالُوا إِلَى سِوَاهُ فَکَانَتِ الْمِنَّةُ مِنْکَ عَلَیَّ مَعَ أَقْوَامٍ خَصَصْتَهُمْ بِمَا خَصَصْتَنِی بِهِ فَلَکَ الْحَمْدُ إِذْ کُنْتُ عِنْدَکَ فِی مَقَامِی هَذَا مَذْکُورا مَکْتُوبا فَلا تَحْرِمْنِی مَا رَجَوْتُ وَ لا تُخَیِّبْنِی فِیمَا دَعَوْتُ بِحُرْمَةِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِینَ وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ